اہل
سنت والجماعت کی نظر میں
اہل سنت والجماعت
کا اعتدال:
الحمدلله اہل سنت والجماعت ہی
فرقہٴ ناجیہ اور طائفہٴ منصورہ ہے ، جس طرح الله تبارک وتعالیٰ
نے اسلام کو اعتدال والا دین قرار دیا ہے ، ایسے ہی امت
محمدیہ ،صلوات الله وسلامہ علی صاحبہا، کو امتِ وسط بنایا ہے او
راس کا صحیح اور حقیقی مصداق ہر زمانہ میں اہل سنت ہی
رہے ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔
عقائد، عبادات، معاملات، افکار ونظریات،
عصمتِ انبیاء علیہم الصلاة والسلام، مقام صحابہٴ کرام رضی
الله عنہم اجمعین، احترامِ سلف صالحین، مجتہدین، محدثین
او رعلمائے امت پراعتماد، غرض دین ودنیا کے ہر معاملے میں الله
تعالیٰ نے اہل سنت کو اعتدال کے اعلیٰ مرتبے سے نوازا ہے
، دوسرا کوئی گروہ اور فرقہ اس صفت میں ان کا شریک نہیں،
اگرچہ اہل بدعت، زیغ وضلال کے داعی، اسلام کے نام پر اسلام کی
بنیادوں پر تیشہ چلانے والے کتنے ہی بناوٹی دعوے اور پروپیگنڈے
کرتے رہیں، لیکن یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہے او رخود
اہل باطل بھی اس کے معترف ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیروکار
اور ”ما أنا علیہ
وأصحابی“ کا یقینی
مصداق ہمیشہ اہل سنت ہی رہے ہیں۔
اسی وسطیت
او راعتدال کا نتیجہ ہے کہ اہل سنت فرق مراتب کے نہ صرف قائل ہیں؛
بلکہ عملی طور سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے ، مزید برآں فرق
مراتب کا لحاظ نہ رکھنے اور کسی بھی شخصیت کو اس کے مقام سے
بڑھا کر پیش کرنے، یا اس کی شان میں ادنی درجے کی
گستاخی کو علمائے اہل سنت نے زندیقیت سے تعبیر کیا
ہے۔
اہل سنت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو الله تعالیٰ
کا آخری نبی اوررسول سمجھتے ہیں، ان کے بعد کسی طرح کے
دعوائے نبوت، چاہے ظلی ہو یا بروزی ، یا امامت اہل بیت
کے نام سے نبوی صفات سے متصف ائمہ کاا عتقاد رکھنے کو علی الاعلان کفر
وزندقہ گردانتے ہیں ، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور
نسبت رکھنے والی ہر شخصیت، چاہے وہ حضرات اہل بیت ہوں ، یا
صحابہ کی مقدس جماعت، سب کی عزت وعظمت، ان کی محبت واتباع او
ران سے تعلق کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اہل بیت کے
نام پر گم راہی وزندقہ:
حضرت عثمان رضی الله عنہ کے آخری
زمانے میں دشمنان اسلام کا ایک ایسا گروہ وجود میں آیا
جس نے اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرنے اوراسلامی تعلیمات
او رحاملینِ دعوت اسلام او ران کی دعوت کو مشکوک بنانے کے لیے ”
اہل بیت“ کی محبت او ران سے موالات کے خوش نما نعرے کا سہارا لے کر
اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف اپنے گھناؤنے منصوبوں کا آغاز کر دیا
تھا، جس کی پھیلائی ہوئی فتنہ انگیزی کی
لپیٹ میں آج بھی سارا عالمِ اسلام گھر ہوا نظر آتا ہے ۔
اسلام کے مقابلے میں اہل بیت
کے ان مقدس نفوس کی طرف منسوب کرکے ایک نیا دین گھڑا گیا
، سیکڑوں اور ہزاروں نہیں؛ بلکہ لاکھوں جعلی روایات واحادیث
وضع کرکے ان لوگوں نے ان ائمہٴ ہدی کی طرف منسوب کیں؛
حالاں کہ اہلِ بیت کے یہ پاک طینت لوگ عقائد وعبادات او رتمام
تر دینی ودنیوی معاملات میں ظاہری وباطنی
طور سے اہل سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے ؛ بلکہ ان جھوٹے او
ردجال لوگوں پر واضح نکیر بھی فرمایا کرتے تھے۔
حضرت زین
العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما:
اہل بیت کے ان باصفا ائمہ میں
سے ایک شخصیت حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ کی
بھی ہے، جن کی طرف روافض نے بے انتہا جھوٹی باتیں منسوب کی
ہیں اور ان کو اپنے من گھڑت او رمزعومہ نظریے کے مطابق معصوم، مفترض
الطاعہ، امام منصوص، محلل ومحرم ، نہ جانے کن کن خدائی، نبوی صفات کے
ساتھ متصف کیا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان سب باتوں سے بری
اور اہل سنت کے دیگر ائمہٴ ہدی کی طرح ایک جلیل
القدر او رعالی مرتبت بزرگ ہیں۔
آج کی اس تحریر کا مقصد
حضرت حسین رضی الله عنہ کے اس جلیل القدر صاحب زادے کا صحیح
تعارف او ران کی زندگی کا حقیقی روپ پیش کرنا ہے،
جو اہل باطل کے بے بنیاد پروپیگنڈے کی وجہ سے لوگوں کی
نظروں سے اوجھل ہے ، اس مختصر سی یادداشت میں ان شاء الله اس کی
کوشش ہو گی کہ ان کا تعارف ، مقام مرتبہ ، طرززندگی ، علمی
انتساب ، ان کی نصیحتیں او رخاص کروہ اقوال ذکر کیے جائیں
گے جن سے نہ صرف روافض کی تردید ہوتی ہے؛ بلکہ اہل سنت کے معتدل
مسلک کی واضح تائید بھی ہوتی ہے۔
نام ونسب اور تعلیم
وتربیت:
زین العابدین کے لقب سے معروف اس
بزرگ کی نسبت خاندان نبوت کی طرف ہے، یہ حضرت علی بن ابی
طالب رضی الله عنہ کے صاحب زادے سیدنا حسین رضی الله عنہ
کے بیٹے ہیں ، علی بن حسین ان کا نام ہے ، قرشی اور
ہاشمی ہیں ، ابوالحسن ان کی کنیت ہے، ابو الحسن ، ابو
محمد اور ابو عبدالله بھی کہا جاتا ہے۔(تہذیب الکمال:382/20،سیر
اعلام النبلاء :386/4،حلیة الاولیا:133/3،تذکرة الحفاظ:74/1،تہذیب
التہذیب:304/7،الثقات:159/5،الجرح والتعدیل:229/6،التاریخ الکبیر:266/6،تاریخ
الاسلام:180/3،الکاشف:37/2)
علامہ ذہبی
رحمة الله علیہ نے ” تاریخ اسلام“ (181/3)میں یعقوب بن سفیان
فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین رحمة الله علیہ
33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن ” سیر اَعلام النبلاء“
(386/4) میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38
ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف
مزّی رحمة الله علیہ نے بھی تھذیب الکمال میں(402/20)
یعقوب بن سفیان سے سن وفات33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی
راجح ہے۔
علی بن
حسین رحمة الله علیہ کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ ہے،
جو اس وقت کے شاہ فارس یزدجرد کی بیٹی تھیں، سیدنا
عمر فاروق رضی الله عنہ کے زمانہٴ خلافت میں ایران فتح
ہوا تو یہ لونڈی بنالی گئی تھی(سیر اَعلام
النبلاء:386/4،تہذیب الکمال:383/20)۔ ابن سعد نے”طبقات“ (211/5)میں
اس کا نام ” غزالہ“ نقل کیا ہے ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی
والدہ خلیفہ یزید بن ولید بن عبدالملک کی پھوپی
تھی۔(سیراعلام النبلاء:399/4)لیکن یہ ضعیف
قول ہے۔
ان کو علی
اصغر کہا جاتا ہے، ان کے دوسرے بھائی جوان سے عمر میں بڑے تھے، ان کو
علی اکبر کہا جاتا تھا ، جو معرکہٴ کربلا میں اپنے والد حضرت حسین
رضی الله عنہ کے ساتھ اہل کوفہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے، (تاریخ
الاسلام:181/3،الطبقات الکبری: 211/5)علی اصغر یعنی علی
بن حسین المعروف زین العابدین رحمة الله علیہ بھی
اپنے والد گرامی حضرت حسین رضی الله عنہ کے ساتھ معرکہٴ
کربلا میں شریک تھے ، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی،
اس موقعہ پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، جب حضرت حسین رضی
الله عنہ شہید کر دیے گئے تو شمر نے کہا کہ اسے بھی قتل کر دو ،
شمر کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : سبحان الله! کیا تم ایسے
جوان کو قتل کرنا چاہتے ہو جو مریض ہے اور اس نے ہمارے خلاف قتال میں
شرکت بھی نہیں کی؟ اتنے میں عمر بن سعد بن ابی وقاص
آئے او رانھوں نے کہا کہ ان عورتوں اور اس مریض یعنی علی
اصغر سے کوئی تعرض نہ کرے ، اس کے بعد ان کووہاں سے دمشق لایا گیا
اورعزت کے ساتھ ان کو مع اہل مدینہ منورہ واپس روانہ کر دیا گیا۔
(الطبقات:212,211/5،تاریخ الاسلام:181/3،سیر اعلام النبلاء: 387,386/4)
تحصیل علم
اور علمی مقام:
حضرت زین العابدین رحمة
الله علیہ نے کبار صحابہٴ کرام وتابعین عظام سے کسب فیض کیا،
آپ نے امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت صفیہ
رضی الله عنہن ، اپنے والد حضرت حسین ، اپنے چچا حضرت حسن، حضرت ابوہریرہ،
حضرت ابن عباس رضی الله عنہم اور ابو رافع ، مسور بن مخرمہ، زینب بنت
ابی سلمہ، سعید بن مسیب، سعید بن مرجانہ ، مروان بن حکم،
ذکوان، عمروبن عثمان بن عفان اور عبیدالله بن ابی رافع رحمہم الله وغیرہ
سے حدیث شریف کا علم حاصل کیا او راپنے جدا مجد حضرت علی
رضی الله عنہ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں۔(تہذیب
الکمال:383/20،سیر اعلام النبلاء:387/4ِِِِِِِِِِِ،تہذیب التہذیب:304/7،المراسیل:139)
تاریخ ابن عساکر (17/12ب)میں
ہے کہ نافع بن جبیر نے علی بن حسین سے کہا: آپ ہمارے علاوہ
دوسرے لوگوں کے پاس ( تحصیل علم کی خاطر ) بیٹھتے ہیں؟ علی
بن حسین نے جواباً فرمایا: میں ان لوگوں کی مجلس میں
بیٹھتا ہوں جن سے مجھے دینی فائدہ پہنچے ۔
ابن سعد نے ”طبقات“(216/5) اپنی
سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین حضرت
عمر رضی الله عنہ کے غلام اسلم کی مجلس میں ( تحصیل علم
کے لیے ) بیٹھا کرتے تھے، ان سے کہاگیا کہ آپ قریش کو
چھوڑ بنی عدی کے ایک غلام کے پاس بیٹھتے ہیں ؟ تو
انھوں نے فرمایا: آدمی کوجہاں فائدہ پہنچے وہاں بیٹھتا ہے۔
ابو نعیم
نے ” حلیة“ (138,137/3)میں عبدالرحمن بن ازدک سے نقل کیا ہے کہ
علی بن حسین مسجد میں آتے، لوگوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے
زید بن اسلم کے حلقے میں تشریف لے جاتے، نافع بن جبیر نے
ان سے کہا: الله آپ کی مغفرت کرے! آپ لوگوں کے سردار ہیں، لوگوں کی
گردنوں کو پھلانگ کر اس غلام کے حلقے میں بیٹھتے ہیں؟ علی
بن حسین نے فرمایا: علم کو طلب کیا جاتا ہے او راس کے لیے
آیا جاتا ہے او راسے حاصل کیا جاتا ہے جہاں وہ ہو۔
ابن سعد نے ” طبقات“ (217,216/5)میں
اپنی سند کے ساتھ یزید بن حازم سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں
کہ میں نے علی بن حسین او رسلیمان بن یاسر کو منبر
اور روضہ شریف کے درمیان چاشت کے وقت تک علمی مذاکرہ کرتے ہوئے
دیکھا، جب اٹھنے کا ارادہ ہوتا تو عبدالله بن ابی سلمہ قرآن پاک کی
کوئی سورت تلاوت کرتے ، اس کے بعد یہ حضرات دعا مانگتے تھے۔
علی بن
حسین رحمة الله علیہ سے بہت سارے تابعین عظام نے فیض حاصل
کیا ہے ، آپ سے حدیث شریف کی روایت کرنے والوں میں
ان کے چار بیٹے ابو جعفر محمد، عمر بن علی بن حسین ، زید
بن علی بن حسین ، عبدالله بن علی بن حسین ، ان کے علاوہ
ابن شہاب زہری ، عمر وبن دینار، حکم بن عیینہ، زید
بن اسلم ، یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، ابوحازم،
محمدبن فرات تمیمی، عاصم بن عبیدالله بن عامر بن عمر بن خطاب
اور یحییٰ بن سعید انصاری رحمہم الله وغیرہ
شامل ہیں۔(تہذیب الکمال: 384,383/20، سیر اَعلام النبلاء:
387/4،تہذیب التہذیب:304/7)
آپ رحمة الله علیہ سفید رنگ
کا عمامہ پہنا کرتے تھے او راس کا شملہ پشت یعنی کمر کی جانب
لٹکا دیتے تھے۔(الطبقات:218/5)
ان سب تصریحات
سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت کے بڑے اور سادات حضرات صحابہ کرام رضی
الله عنہم خاص کر ازواج مطہرات رضی الله عنہن سے علم دین حاصل کرتے
تھے، جیسا کہ عام مسلمانوں کا معمول تھا، اس سے روافض کے اس زعمِ باطل کی
بھی تردید ہوتی ہے کہ اہل بیت کے یہ پاک باز نفوس
تحصیل علم میں دوسروں کے محتاج نہیں او ران کے پاس مخصوص علم ہے
، ان کے سوا تمام لوگ انکے محتاج ہیں اور وہ کسی کے محتاج نہیں،
اس عالمی جھوٹ کی حضرت باقر اور حضرت زین العابدین رحمہما
الله وغیرہ، علماء اہل بیت نے نہ صرف زبانی تردید کی
ہے، بلکہ ان کا عمل بھی ان کی تردید کی واضح دلیل
ہے، جیسا کہ ابن رجب حنبلی رحمة الله علیہ نے فتح الباری
میں لکھا ہے ۔(145/1)
عبادت گزاروں کی
زینت:
حضرت علی بن حسین رحمة الله
علیہ بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے، وہ بنی ہاشم کے فقہاء
وعابدین میں سے تھے اس زمانے میں ان کو مدینہ منورہ میں
” سید العابدین“ یعنی عابدوں کا سردار کہا جاتا تھا، ان کی
اسی عبادت گزاری کی کثرت کی وجہ سے ان کو ” زین
العابدین“ عبادت گزاروں کی زینت بھی کہا جاتا تھا۔(الثقات:160,159/5)
امام مالک رحمة
الله علیہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ علی
بن حسین رحمة الله علیہ کا موت تک روزانہ ایک ہزار رکعت نفل
پڑھنے کا معمول تھا اوران کو کثرت عبادت کی وجہ سے ”زین العابدین“
کہا جاتا تھا۔(تہذیب الکمال:390/20،سیر اعلام النبلاء: 392/4،تہذیب
التہذیب:306/7) امام زہری رحمة الله علیہ علی بن حسین
کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے اور انھیں زین العابدین کے نام سے یاد
کرتے تھے۔ (حلیة الاولیاء:135/3)ابو نعیم نے ” حلیة
“ (133/3)میں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ عبادت گزاروں کی
زینت، قانتین کی علامت، عبادت کا حق ادا کرنے والے او رانتہائی
سخی ومشفق تھے۔
ابن عیینہ نے زہری سے
نقل کیا ہے کہ میں اکثرعلی بن حسین کی صحبت میں
بیٹھا کرتا تھا، میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں
پایا؛ لیکن وہ بہت کم گو تھے ۔ امام مالک رحمة الله علیہ
نے فرمایا کہ اہل بیت میں ان جیسا کوئی نہیں؛
حالاں کہ وہ ایک باندی کے بیٹے تھے۔ (تہذیب الکمال:
386/20، سیر اَعلام النبلاء:389/4)
حضرت زین العابدین رحمة
الله علیہ جب نماز کے لیے وضو کرتے تھے توان کا رنگ پیلا پڑ
جاتا اور وضو واقامت کے درمیان ان کے بدن پر ایک کپکپی کی
کیفیت طاری ہوتی تھی ، کسی نے اس کے بارے میں
پوچھا تو فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے
جارہاہوں اور کس سے مناجات کرنے لگا ہوں( یعنی الله تعالیٰ
سے)۔(الطبقات:216/5،تھذیب الکمال:390/20،سیر اَعلام
النبلاء:392/4)
کسی نے
حضرت سعید بن مسیب رحمة الله علیہ سے کہا کہ آپ نے فلاں سے بڑھ
کر کسی کو پرہیز گار پایا؟ انھوں نے فرمایا کیا تم
نے علی بن حسین کو دیکھا ہے ؟ تو سائل کہا کہ نہیں، تو
فرمایا کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بھی پرہیز
گار نہیں پایا۔ (حلییة الاولیاء: 141/3،تھذیب
الکمال: 389/20)طاؤس رحمة الله علیہ کہتے ہیں میں نے علی
بن حسین کو سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ
فرمارہے تھے :”عَبِیْدُکَ
بِفِنَائِکَ، وَمِسْکِیْنُکَ بِفِنَائِکَ، سَائِلُکَ بِفِنَائِکَ، فَقِیْرُکَ
بِفِنَائِکَ“․(تھذیب الکمال:391/20،سیر اَعلام النبلاء:393/4)
حضرت طاوس کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی
کسی مشکل میں ان الفاظ کے ساتھ دعاکی تو الله تعالیٰ
نے میری مشکل کو آسان فرما دیا۔(حوالہٴ سابق)
ابو نوح انصاری کہتے ہیں کہ علی
بن حسین کسی گھر میں نماز پڑھ رہے تھے اور وہ سجدے کی
حالت میں تھے کہ وہاں آگ لگ گئی ، تو لوگوں نے کہنا شروع کیا:
اے رسول الله کے فرزند، آگ آگ۔ انھوں نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں
اٹھایا جب تک آگ بجھ نہ پائی، ان سے کسی نے کہا کہ کس چیز
نے آپ کو آگ سے بے خبر رکھا تھا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے آخرت کی فکر
نے اس آگ سے بے خبر کر دیا تھا۔(تاریخ ابن عساکر:19/12 ب، تھذیب
الکمال: 390,389/20، سیر اعلام النبلاء:392,391/4)
جعفر صادق رحمة الله علیہ کہتے ہیں
کہ میرے والد ایک رات ایک دن میں ہزار رکعت نماز پڑھا
کرتے تھے ، ان کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے، میں
نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالاں کہ میں نے آپ کی طرح کسی
کو الله کا طالب نہیں دیکھا اور یہ میں اس لیے نہیں
کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے والد ہیں، انھوں نے کہا اے میرے بیٹے!
میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ملک مقرب ہو یا
نبی مرسل، ہر ایک الله کی مشیت وارادے کے تحت ہو گا جس کو
چاہیں عذاب دیں گے اور جس کوچاہیں معاف فرمادیں گے۔(تاریخ
ابن عساکر: 20/12، سیراَعلام النبلاء:392/4،تہذیب الکمال:391/20)
انفاق فی سبیل
الله:
حضرت زین العابدین رحمة
الله علیہ بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی غیر
معمولی اہتمام کیا کرتے تھے، وہ انتہائی درجے کے سخی اور
خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے تھے ، حجاج بن ارطاة نے جعفر صادق
رحمة الله علیہ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میرے
والد نے دو مرتبہ اپنا سارا مال الله کی راہ میں صدقہ کر دیا
تھا۔(حلیة الاولیاء:140/3، الطبقات: 219/5، تہذیب التہذیب:306/7)
ابو حمزہ ثمالی
کہتے ہیں کہ علی بن حسین رات کے اندھیرے میں پشت پر
روٹی لادے مساکین کو تلاش کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رات
کے اندھیرے میں چھپاکرصدقہ کرنا الله کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، (حلیة
الاولیاء:136,135/3،تہذیب الکمال: 396/20،سیر اعلام النبلاء:
393/4) شیبہ بن نعامہ کہتے ہیں کہ علی بن حسین کو لوگ ان
کی زندگی میں بخیل تصور کرتے تھے، لیکن جب ان کا
انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مدینہ منورہ کے سو گھرانوں کی کفالت کرتے
تھے۔ (الطبقات:222/5،حلیة الاولیاء:136/3، تہذیب
الکمال:392/20)
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مدینہ
منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے
معاش کا انتظام کون کرتا ہے؟ لیکن جب علی بن حسین کا انتقال ہوا
تو وہ اس ذریعہٴ معاش سے محروم ہو گئے، جو رات کو ان کے لیے سبب
بنتا تھا، (تاریخ ابن عساکر:21/12أ،حلیة الاولیاء: 136/3، تھذیب
الکمال :392/20،سیر اعلام النبلاء:393/4)جریر بن عبدالحمید نے
عمروبن ثابت سے نقل کیا ہے کہ جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو
لوگوں نے ان کی کمر پر کچھ نشان پائے اس کے بارے میں پوچھا گیا
تو بتایا گیا کہ یہ اس بوجھ کی وجہ سے ہے جو رات کے اندھیرے
میں یتیموں کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ ((تاریخ
ابن عساکر:21/12أ،حلیة الاولیاء:136/3، سیر اعلام النبلاء:393/4،تہذیب
الکمال:392/20)علی بن حسین فرمایا کرتے تھے کہ جب میں کسی
مسلمان بھائی کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے لیے الله سے جنت
کا سوال کرتا ہوں تو دنیا میں اس کے ساتھ بخل کا معاملہ کیسے
کروں؟!جب کل کا دن ہوگا تو مجھ سے کہا جائے گا:اگر جنت تیرے ہاتھ مین
ہوتی تو تواس کے ساتھ اس سے زیادہ بخل کا معاملہ کرتا۔(تاریخ
ابن عساکر: 12/21ب، تہذیب الکمال:393/20،سیر اعلام النبلاء:394/4)
جلالت شان:
حضرت زین
العابدین رحمة الله علیہ اپنے زمانے کے بہت ہی جلیل
القدراور عالی مرتبت بزرگوں میں سے تھے ، لوگ ان کی بہت زیادہ
عزت وتکریم کیا کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے، جسے علامہ مزی نے تھذیب(400/20۔402)
میں، ابو نعیم نے حلیہ (139/3) میں اور علامہ ذہبی
نے تاریخ اسلام(184,183/3) اور سیر اعلام(398/4) میں نے نقل کیا
ہے کہ ہشام بن عبدالملک اپنے زمانہ خلافت سے قبل ایک دفعہ حج کے لیے
گئے ، بیت الله شریف کے طواف کے دوران حجر اسود کا استیلام کرنے
کا ارادہ کیا، لیکن اژدھام کی وجہ سے نہیں کر پائے۔
اتنے میں حضرت علی بن حسین
تشریف لائے، ایک چادر او رتہہ بندباندھے ہوئے، انتہائی خوب صورت
چہرے والے، بہترین خوش بو والے، ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی
پر) سجدے کا نشان تھا، طواف شروع کیا او رجب حجر اسود کے قریب پہنچے
تو لوگ ان کی ہیبت اور جلالت شان کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور
آپ نے اطمینان کے ساتھ استیلام کیا، ہشام کو یہ بات اچھی
نہیں لگی ، اہل شام میں سے کسی نے کہا یہ کون ہے کہ
جس کی ہیبت اور جلال نے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا؟
ہشام نے یہ سوچ کر کہ کہیں اہل شام ان کی طرف مائل نہ ہو جائیں
، کہا میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں؟
مشہور شاعر فرزدق قریب ہی
کھڑا تھا، اس نے کہا میں انھیں جانتا ہوں ۔ اس پر اس شامی
نے کہا اے ابو فراس! یہ کون ہیں؟ اس وقت فرزدق نے حضرت زین
العابدین رحمة الله علیہ کی تعریف میں بہت سارے
اشعار کہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔
ھذا الذي تعرف البطحاء وطأتہ والبیت یعرفہ والحل والحرم
ھذا ابن فاطمة إن کنت جاھلہ بجدّہ انبیاء اللہ قد ختموا
ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جس کے چلنے
کو بطحاء، بیت الله، حل اور حرم بھی جانتے ہیں، یہ حضرت
فاطمہ کے فرزند ہیں، اگرچہ تم تجاہل سے کام لے رہے ہو، انھیں کے دادا
( محمد صلی الله علیہ وسلم) کے ذریعہ انبیا کا سلسلہ ختم
کیا گیا ہے۔
ہشام بن عبدالملک کو غصہ آیا اس
نے فرزدق کو قید کرنے کا حکم دیا، ان کو مکہ ومدینہ کے درمیان
” عسفان“ نامی جگہ میں مقید کر دیا گیا، حضرت علی
بن حسین کو پتہ چلا تو انھوں نے فرزدق کے پاس 12 ہزار دینار بھیجے
او رکہا ابو فراس! اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ ہوتے تو ہم وہ بھی
بھجوادیتے، فرزدق نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اے رسول الله صلی
اللہ علیہ وسلم کے فرزند !میں نے جو کہا الله او راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر
کہا ہے او رمیں اس پر کچھ کمانا نہیں چاہتا، حضرت زین العابدین
نے یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ تمہارے اوپر جو میرا حق ہے، اس
کا واسطہ ہے کہ تم انھیں قبول کرلو، بے شک الله تیرے دل کے حال او رنیت
کو جانتے ہیں۔ تو انھوں نے قبول کر لیا۔(سیر اَعلام
النبلاء: 399/4، تہذیب الکمال:402/20)
عقیدئہ
امامت پرنکیر:
حضرت زین العابدین رحمة
الله علیہ حضرات صحابہ کرام
کے بارے میں عموماً او رحضرات خلفائے راشدین کے بارے میں خصوصاً
اہلِ سنت کے ہم مسلک ومشرب تھے اور ائمہ کے بارے میں روافض کے مخصوص عقائد
وافکار کا انکار کرتے تھے؛ چنانچہ فضیل بن مرزوق کہتے ہیں کہ میں
نے عمر بن علی اور حسین بن علی سے سوال کیا، کہ اہل بیت
میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کی اطاعت فرض قرار دی
گئی ہو؟ کیا آپ اس کو جانتے ہیں اور جو اس کو نہ پہچانتا ہو تو
کیا وہ جاہلیت کی موت مرے گا؟ تو انھوں نے کہا: الله کی
قسم! اہل بیت میں ایسا کوئی شخص نہیں جو مفترض
الطاعة ہو اور جو شخص اہل بیت کے بارے میں ایسی بات کہے
وہ کذاب ہے، فضیل کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ روافض یہ عقیدہ
رکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے حضرت علی
کے لیے ، انھوں نے حضرت حسن
کے لیے ، انھوں نے حضرت حسین کے لیے ، انھوں نے اپنے بیٹے
علی کے لیے او رانھوں نے اپنے بیٹے
محمد کے لیے (امامت) کی وصیت
کی تھی، عمر بن علی نے جواب میں فرمایا: الله کی
قسم! میرے والد کا اس حال میں انتقال ہوا ہے کہ انھوں نے دو حرفوں کی
بھی وصیت نہیں کی تھی، ان لوگوں کو کیا ہو گیا
ہے کہ ہماری طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں، الله انھیں ہلاک کرے ،
الله کی قسم! یہ لوگ (روافض) اہل بیت کے نام پر اپنے پیٹ
بھرتے ہیں، پھر فرمایا: یہ خنیس پرندے کی بیٹ
ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ خنیس کون ہے ؟ راوی کہتے ہیں میں
نے کہا معلی بن خنیس، فرمایا: ہاں معلی بن خنیس،
پھر فرمایا کہ میں دیر تک سوچتا رہا کہ الله نے ان (روافض) کی
عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے، یہاں تک کہ معلی بن خنیس نے
انھیں گم راہ کر دیا ہے۔(تہذیب الکمال:396,395/20)
عیسٰی بن دینار نے ابو
جعفر محمد بن علی بن حسین
سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین رحمة الله علیہ کعبہ کے
دروازے پر کھڑے ہو کر مختار بن ابی عبید پر لعنت کر رہے تھے، کسی
نے کہا: اے ابوالحسین! آپ ان پر کیوں لعنت کر رہے ہیں؟ حالاں کہ
وہ اہل بیت کے نام پر ذبح کیے گئے ہیں، علی بن حسین
نے فرمایا، بے شک وہ جھوٹا تھا ،الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑتا
تھا۔ (الطبقات: 213/5، تہذیب الکمال:396/20،سیراعلام
النبلاء:397/4) حکم نے ابوجعفر سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم
بنی امیہ کے پیچھے بغیر کسی” تقیہ“ کے
نمازپڑھتے ہیں، میں اپنے والد کے بارے میں گواہی دیتا
ہوں کہ وہ بھی بنی امیہ کی اقتدا میں بغیر کسی
”تقیہ“ کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ (الطبقات:217/5،سیر اعلام
النبلاء:397/4)
زین العابدین
رحمة اللہ علیہ اورحضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم:
اہل بیت
کے یہ پاک باز نفوس حضرات صحابہ کرام وخلفائے راشدین رضی الله
عنہم کے بارے میں اہل سنت کے نہ صرف ہم مسلک وہم مشرب تھے؛ بلکہ ان کا
بھرپور دفاع کیا کرتے تھے؛ چناں چہ ابو حازم کہتے ہیں کہ علی بن
حسین سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی الله عنہما کا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
نزدیک کیا مرتبہ تھا؟ انھوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم
کے روضہٴ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جو تقرب ان کو آج اس
روضہ میں حاصل ہے ایسا ہی حضور صلی الله علیہ وسلم
کی زندگی میں بھی تھا۔(تھذیب الکمال: 393/20،سیر
اعلام النبلاء:395/4)
محمد بن علی بن حسین نے اپنے والد
سے نقل کیا ہے کہ ان کے پاس عراق سے کچھ لوگ آئے او رانھوں نے ابو بکر وعمر کا تذکرہ سبّ وشتم کے ساتھ کیا اور
حضرت عثمان کی شان میں گستاخی کرنے لگے، (والعیاذ
باللہ)حضرت علی بن حسین نے ان عراقیوں سے کہا: کیا تم ان
مہاجرین اولین میں سے ہو جن کے بارے میں الله تعالیٰ
نے یہ ارشاد فرمایا:﴿لِلْفُقَرَاء الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ
أُخْرِجُوا مِن دِیْارِھِمْ وَأَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً
مِّنَ اللہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ ھُمُ
الصَّادِقُون﴾َ ․ (الحشر:8)
اہل عراق نے کہا: ہم ان لوگوں میں
سے نہیں جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ ارشاد
فرمایا ہے۔ حضرت علی بن حسین نے پھر کہا: کیا تم
لوگ ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ
ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ
تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیْمَانَ مِن قَبْلِھِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ
إِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِھِمْ حَاجَةً مِّمَّا
أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ
خَصَاصَةٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ
الْمُفْلِحُونَ﴾ ․(الحشر:9)
اہل عراق نے کہا، ہم ان لوگوں میں
سے بھی نہیں جن کے بارے میں الله نے یہ ارشاد فرمایا
ہے ۔ اس کے بعد حضرت زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ تم
لوگوں نے خود اقرار کیا کہ تم آیات میں مذکور دونوں فریقوں
میں سے نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتاہوں
کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں الله نے یہ
ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ
جَاؤُوا مِن بَعْدِھِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا
الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ
قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾․ (الحشر:10) ، پھرفرمایا:تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاوٴ،
اللہ تمہارا گھر قریب نہ کرے،تم اپنے آپ کو اسلام کے لبادے میں چھپاتے
ہو جب کہ تم اہل اسلام میں سے نہیں ہو۔(حلیة الاولیاء:137,136/3،تھذیب
الکمال:395,394/20،سیر اعلام النبلاء:395/4)
جعفر بن محمد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے وہ
کہتے ہیں کہ میرے والدکے پاس ایک آدمی آیا او رکہنے
لگا مجھے ابوبکر وعمر
کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا: صدیق کے بارے
میں پوچھ رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا آپ انہیں”صدیق“ کہہ رہے
ہیں ؟ انھوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کردے! مجھ سے
بہتر یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رمہاجرین
وانصار نے ان کو ”صدیق“ کہا ہے، پس جو ان کو صدیق نہ کہے، الله اس کی
بات کو سچا نہ کرے ، جاؤ! ابوبکر وعمر
سے محبت کرو اور انھیں عزیز رکھو، اس کی تمام ذمہ داری میری
گردن پر ہے۔(،تہذیب الکمال: 394,393/20،سیر اعلام
النبلاء:395/4))یحییٰ بن سعید کہتے ہیں علی
بن حسین المعروف زین العابدین رحمة الله علیہ نے فرمایا:
الله کی قسم! حضرت عثمان
کو ناحق شہید کیا گیا ہے۔ (الطبقات: 216/5،سیر
اعلام النبلاء:397/4)
زین العابدین
رحمة الله علیہ کے چندبیش بہا اقوال:
*جسم اگر بیمار
نہ ہوتو وہ مست ومگن ہو جاتا ہے اور کوئی خیر نہیں ایسے
جسم میں جو مست ومگن ہو۔(حلیة الاولیاء:134/3،سیر
اعلام النبلاء:396/4)
*دوستوں کا نہ
ہونا پردیسی ( اجنبیت) ہے۔(حلیة الاولیاء:134/3)
*جو الله کے دیے
ہوئے پر قناعت اختیار کر لے وہ لوگوں میں سب سے غنی آدمی
ہو گا۔(حلیة الاولیاء:135/3)
*جو باتیں
معروف نہیں وہ علم میں سے نہیں ، علم تو وہ ہے جو معروف ہو
اوراہل علم کا اس پر اتفاق ہو۔(تھذیب الکمال:398/20،سیر اعلام
النبلاء:391/4)
*لوگوں میں
سب سے زیادہ خطرے میں وہ شخص ہے جو دنیا کو اپنے لیے خطرے
والی نہ سمجھے۔(حوالہ بالا)
*کوئی کسی
کی ایسی اچھائی بیان نہ کرے جو اسے معلوم نہ ہو ،
قریب ہے کہ وہ اس کی وہ برائی بیان کر بیٹھے جو اس
کے علم میں نہیں ۔(تھذیب الکمال:398/20)
*جن دو شخصوں کا
ملاپ الله کی اطاعت کے علاوہ ہوا ہو تو قریب ہے کہ ان کی جدائی
بھی اسی پر ہو۔(تھذیب الکمال:398/20)
*اے بیٹے
!مصائب پر صبر کرو اور حقوق سے تعرض نہ کرو اوراپنے بھائی کو اس معاملے کے لیے
پسند نہ کرو جس کا نقصان تمہارے لیے زیادہ ہو اس بھائی کو ہونے
والے فائدے سے۔(تہذیب الکمال:399/20،حلیة الاولیاء:138/3)
*الله تعالیٰ
توبہ کرنے والے گناہ گار مومن سے محبت فرماتے ہیں۔(حلیة الاولیاء
:140/3، الطبقات: 219/5،تھذیب الکمال:391/20)
وفات:
خانوادئہ نبوت
کے اس چشم وچراغ نے ساری زندگی سنتِ نبوی اورحضرات صحابہ کرام
رضی الله عنہم کے نقش قدم پر چل کر بالآخر داعی اجل کو لبیک
کہا، ان کے سنہ وفات کے بارے میں اختلاف ہے ،,99,95, 94,93,92 اور100 ہجری
کے مختلف اقوال منقول ہیں، مگر صحیح قول کے مطابق زین العابدین
رحمة الله علیہ بروز منگل14 ربیع الاول94 ہجری میں دار
فانی سے داربقاکی طرف کوچ کر گئے، جنت البقیع میں جنازہ
پڑھا گیا اور وہیں پر مدفون ہوئے۔(تہذیب الکمال:
404,403/20،سیر اعلام النبلاء:400/4، الثقات:160/5،تھذیب التھذیب:307/7،
تاریخ الاسلام:184/3،الطبقات:221/5،الکاشف:37/2)
الله تعالیٰ ہمیں پاک
طینت اور نیک سیرت اہلِ بیت کی اتباع کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور ان کی طرف منسوب جھوٹ اورمن گھڑت باتوں سے تمام
امت کی حفاظت فرمائے۔
***
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9 ،
جلد: 96 ، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء